بھارت اور پی ٹی ایم ایک پیج پر ہیں

احسن لاکھانی

پچھلے کئی دیہائیوں سے بھارت، پاکستان کو نقصان پہچانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اپناتا آیا ہے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھُپی بھی نہیں ہے۔ بھارت کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر کسی طرح بدنام کرکے اس کی پوزیشن کو نْقصان پہنچایا جائے اور دنیا کے سامنے یہ باور کروایا جائے کہ پاکستان دہشت گردوں کا حمایتی ہے، پاکستان سے عالمی تعلقات ختم کیے جائیں۔ بھارت نے اس ضمن میں ہر ممکن کوشش کی، سام، دام، ڈھنڈ اور بھید ہر طرح کا ہتھیار آزمایا۔ غیروں سے بھی کوشش کروائی اور پاکستان میں سے بھی لوگوں کو خرید کر اپنا نظریہ بیچنے کی حماقت کی۔

پی ٹی ایم(پشتون تحافظ مومنٹ) ان کرایے داروں میں سے ایک ہے جنہیں دام دے کر اپنی مرضی کے کام کرایے جاتے ہیں، لسانیت کا بیچ بونے کی کوشش ناکام ہوگئی تو انہیں افغانستان کے ساتھ منسلک کرکے پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا کام دے دیا۔ لیکن ان کا آقا یعنی کے بھارت ہر بار منہ کی کھاتا ہے اوربھارت کا خریدا ہوا غلام بھی ہر بار منہ کی ہی کھاتا ہے۔ یو این نے ۲ جون کو طالبان کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایاگیا ہے کہ طالبان اب تک القائدہ کے ساتھ رابطے میں ہیں جب کہ معاہدے میں یہ بات طے پا گئی تھی کہ طالبان کسی بھی دہشت گرد تنظیموں سے رابطہ نہیں کریں گے۔

اس رپورٹ کے شائع ہوتے ہی افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے اپنی پرانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کے خلاف زہر افشانی شروع کردی۔ وہ پہلے سے ہی جھوٹا پروپیگنڈا کرتے آئے ہیں کہ پاکستان طالبان کو استعمال کرکے دہشتگردی کرواتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ افغانستان، بھارت اور پی ٹی ایم تینوں ہر بار پاکستان کے خلاف ایک پیج پر ہی کیوں ہوتے ہیں؟ تینوں کے بیانات، الفاظ اور نظریات ایک جیسے ہی کیوں ہوتے ہیں؟ بھارت کی طرف سے افغانستان اور پی ٹی ایم کو اشارے ملتے ہیں اور پھر غلام اپنے آقا کا اشارہ ملتے ہی اپنی دکان کھول دیتے ہیں اور خوب جھوٹ کا دھندا کیا جاتا ہے۔

لیکن جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا یہ ہر بار منہ کی کھاتے ہیں، امریکا اس وقت کورونا سے تنگ ہے، احتجاجی مظاہروں نے الگ پریشان کیا ہوا ہے اور اتنے سالوں کی جنگ کے باوجود کوئی نتیجہ نہ نکلنے کے سبب وہ جلد از جلد افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں امریکا کو سب سے زیادہ جس ملک نے سپورٹ کیا وہ تھا پاکستان جس بات کا اعتراف خود زلمے خلیل زاد امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان نے کیا ہے۔ طالبان نے بھی معاہدہ کروانے میں پاکستان کے کردار کو سراہا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ان کی دال کہاں گھلنے والی ہے؟ وہ ہر بار ناکام ہوتے ہیں اور اس بار بھی ناکامی ہی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
ان ساری صورتِ حال میں دلچسپ امر یہ ہے کہ پورے معاہدے کے دوران افغان حکومت کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ امریکہ کی جانب سے بھی اور طالبان کی جانب سے بھی ان کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ اب جب کہ معاہدہ آخری مرحلوں سے گزر رہا ہے، دونوں پارٹیوں نے امن ہی کو اس مسئلے کا حل مان لیا ہے تو ایسی صورتِ حال میں بھارت کیا کر سکتا ہے؟ افغان اور امریکی امن معاہدہ اشرف غنی کی کابُل کی مئیرشپ سے بہت بڑا ہے۔ افغانستان حکومت کی اہمیت اس مسئلے کے مقابلے میں بہت چھوٹی ہے۔ ایسی حرکتیں کرکے انہوں نے خود کو ہی رُسوا کروانا ہے۔