رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں عفو و درگزر، رحم و کرم، محبت و شفقت اور پیار ہی پیار نظر آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا۔ کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ بلکہ ہمیشہ رحم کا معاملہ ہی فرمایا ہے۔
ایک جنگ میں کئی لوگ قیدی بنا کر لائے گئے۔ ان میں سخاوت وفیاضی میں مشہور زمانہ حاتم طائی کی صاحبزادی "طی” بھی موجود تھی۔جب اسے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو اس نے کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا تم جانتے ہو میں کون ہوں؟ میں عرب کے مشہور قبیلے کے سردار کی صاحبزادی ہوں۔ میرا باپ سخاوت وفیاضی میں ممتاز تھا وہ بھوکوں کو کھانا کھلاتا تھا، ننگوں کو کپڑے پہناتا تھا، حاجت مندوں کی حاجت پوری کرتا تھا، اس نے اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی ضرورت مند کو واپس نہیں کیا اور کوئی سائل اس کے در سے خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ خوبیاں سنیں تو فرمایا کہ یہ اعلیٰ صفات تو اہل ایمان کی ہیں۔ اگر تمہارا باپ مسلمان ہوتا تو وہ بڑا نیک اور متقی انسان ہوتا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اس کو رہا کر دیا جائے کہ اس کا باپ حسن اخلاق میں اچھا اور لوگوں کے ساتھ رحم کرتا تھا”
اس واقعہ سے ہمیں ڈھیروں سبق ملتے ہیں لیکن ایک بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ بھوکوں کو کھانا کھلانا، غریبوں کی مدد کرنا، حاجت مندوں کی حاجت پوری کرنا یہ اہل ایمان کی صفات ہیں۔
اب آئیے چودہ سو سال بعد آج کے مسلمان کی حالت دیکھتے ہیں۔ حالیہ دنوں تقریبا دنیا کے تمام ممالک چاہے وہ ترقی یافتہ ہوں یا تنزلی کا شکار ہوں وہ ایک عالمی وباء کرونا وائرس سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ وباء بہت تیزی سے دم پکڑ رہی ہے اور ہر شخص اس وباء کے خوف میں مبتلا ہے لیکن منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے اس وباء کو بھی باعث رحمت سمجھتے ہوئے ہر چیز چاہے اشیائے خوردونوش ہو یا ادویات ہو کے دام دگنے کر دیے ہیں اور عوام کو ایک اور خوفِ مہنگائی میں مبتلا کردیا ہے۔ ماشاءاللہ دودھ والے سے لے کر حاجی نعمت کریانے والا، سبحان اللہ بیکری سے لے کر مدینہ سپراسٹور والا ہر شخص بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ مندرجہ بالا واقعے کی روشنی میں تو اہل ایمان کا یہ طرز عمل ہونا چاہیے تھا کہ غریبوں اور حاجت مندوں کے لیے رعایت برتی جاتی لیکن افسوس آج کا مسلمان کہنے کو مسلمان تو ہے لیکن اہل ایمان نہیں ہے۔
یہ تو بات رہی منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی لیکن اگر میں یہاں صرف منفی چہرہ ہی دکھاؤں گا تو میں ان لوگوں کے ساتھ زیادتی کروں گا جو اس مشکل کی گھڑی میں رنگ، نسل، زبان، مذہب کی تفریق کے بغیر مہنگے داموں راشن خرید کر بھی ان سفید پوشوں کا بھرم رکھے ہوئے ہیں جو اس وقت خاموشی سے اپنی بھوک کو برداشت کیے ہوئے ہیں۔ میں ایسے فلاحی اداروں کو سلام پیش کرتا ہوں جو صرف اور صرف انسانیت کی خدمت کو ترجیح دیتے ہیں اور اس ملک پر جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو اپنی جان ومال دونوں سے اس ملک کے باشندوں کی خدمت کرتے ہیں۔ جہاں ہمارے پاس ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں جیسے ظالم لوگ موجود ہیں وہیں ہمارے پاس ان فلاحی اداروں کی شکل میں انسانوں پر رحم کرنے والے فرشتہ صفت لوگ بھی موجود ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ہمیشہ قدر کرنی چاہیے تاکہ ان کے مورال اور بلند ہوں۔