آج ہم جس صورت حال سے گزر رہے ہیں، اس نے سب ہی کو متاثر کیا ہے، مگر بچے اس سے زیادہ متاثر ہوئے۔ اسکول میں دن کا بڑا حصہ گزارنا، ٹیوشن، سپارہ پڑھنا اور پھر سو جانا، کل تک ہمارے بچوں کی یہی روٹین تھی۔
البتہ آج بچے زیادہ وقت مختلف ٹی وی پروگرامز، سیل فون اور اس طرح کی دوسری ٹیکنالوجیز کے ساتھ گزار رہے ہیں، جہاں سے سیکھی جانے والی چیزوں کو وہ اپنی زندگی میں اپلائی کرتے ہیں، ان میں کئی منفی باتیں بھی ہوتی ہیں۔
ان حالات میں بچوں کو مصروف رکھنا اور صحت مند سرگرمیوں کی سمت مائل کرنا ہہت ضروری ہے۔ سماجی فاصلہ ضرور رکھیں، مگر رابطہ مضبوط کریں۔
اگر والدین چاہییں، تو بچوں کو ہر وہ چیز سکھا سکتے ہیں، جن کے بارے میں وہ ماضی یہ سوچ کر رک جاتے تھے کہ ابھی وقت میسر نہیں۔
آج کے بچوں میں جس کمی کا سب سے زیادہ احساس ہوتا ہے، وہ ان کے رویے کا معتدل نہ ہونا ہے۔ کل تک گھر والے اسکول اور اسکول والے گھر والوں پر الزام لگا کر بری الذمہ ہوجاتے تھے، مگر آج ہم اپنے بچوں کو ان تمام اچھی اور بری باتوں سے آگاہ کرسکتے ہیں۔ اگر ہم کچھ وقت ان کی بصیرت اور بصارت کو سنوارنے پر صرف کریں، تو بچوں کے رویے میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ یوں یہ بچے معاشرے کے کارآمد شہری بن سکتے ہیں۔
کورونا بحران کی وجہ سے فوری اسکول کھلتے نظر نہیں آتے۔ سندھ حکومت نے ان چھٹیوں کو گرمیوں کی چھٹی کا نام دے کر توسیع کردی ہے۔ خدشہ ہے کہ ان میں مزید توسیع ہوگی اور یہ مزید چند ماہ جاری رہیں گی، کیوں کہ سماجی اجتماعات کا سب سے بڑا مرکز یہ اسکول ہی ہیں۔
اس صورت حال میں والدین کو چاہے کہ بچوں کے لیے ٹائم ٹیبل بنائیں، انھیں دینی اور دنیاوی تعلیم دینے کا اہتمام کریں، انھیں ورزش کی اہمیت بتانے کے ساتھ ساتھ تحریک دیں۔
ہمیں اپنے بچوں کو کورونا بحران کے بعد کی دنیا میں ایک مضبوط سوچ عطا کرنی ہے۔ اب فقط تعلیمی اداروں اور اساتذہ پر پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین سامنے آئیں اور اپنا کردار نبھائیں۔