تحریر: بریگیڈیر ریٹائرڈ باسط شجاع
(سابق سیکٹر کمانڈر غازی رینجر سندھ)
کورونا زدہ ماحول میں ایک مجرم کی سزا کی خبر سے شاید کسی کو زیادہ دلچسپی نہ ہو، لیکن میرے کراچی کے ساتھی اور دوست ضرور چونکے ہوں گے، جب انہیں لیاری گینگ وار کے سرغنہ عذیر بلوچ کو سزائے موت سنائے جانے کا علم ہوا ہوگا۔
آج یہ اطلاع جس طرح ٹھنڈے پیٹوں سنی گئی ہے اور لیاری میں ایک رکشے کی ہوا بھی نہیں نکالی گئی، تو مجھے ایسے لگا، جیسے محنت وصول ہوگئی ہو۔ اس "سکون” اور عذیر بلوچ کو سنائی جانے والی سزا کے پیچھے الحمداللہ اس خاکسار کی کاوشیں بھی ہیں، جس کے اجر کی مجھے اپنے رب سے امید ہے۔
اکتوبر 2010 میں سندھ رینجرز میں تعیناتی ہوئی، اس وقت شورش زدہ کراچی میری ہی عمل داری میں تھا، میں سیکٹر کمانڈر تھا اور عذیر بلوچ لیاری گینگ وار کا باس، لیاری تو کیا پورے کراچی میں عذیر بلوچ کا نام دہشت کی علامت تھا۔ لیاری کا علاقہ پولیس تو کیا رینجرز کے لئے بھی نو گو ایریا تھا۔ ہر گلی کے نکڑ پر سردار کے کارندے جدید رائفلز کے ساتھ موجود ہوتے تھے۔ دہشت گردی، منشیات، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، الغرض لیاری ہر قسم کے جرائم کی آماج گاہ تھی اور پیپلزپارٹی کی صوبائی اور وفاقی حکومت کی مکمل سرپرستی عزیر بلوچ کو میسر تھی۔
جنرل رضوان اختر کی سندھ رینجرز کی کمان سنبھالنے سے پہلے لیاری گینگ وار کے خلاف آپریشن کا آغاز کردیا گیا تھا، لیکن صحیح معنوں میں جسے آپریشن کہا جائے، وہ جنرل رضوان اختر صاحب کی کمان میں شروع ہوا، جس میں عبداللہ شاہ غازی رینجرز اور لیاری ونگ کے کرنل حسن، میجر عمران، ڈی ایس آر جہانگیر، مظہراور پولیس کی طرف سے ڈی آئی جی ساؤتھ عبدالخالق شیخ انسپکٹر شفیق تنولی مرحوم نے دلیرانہ کردار ادا کیا۔ اس موقع پر دعا گو ہوں کہ لیاری میں شہید ہونے والے ڈی ایس آر حنیف، سپاہی سہیل، سپاہی انور اور سپاہی اصغر کے اللہ تعالی درجات بلند فرمائے کہ انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس عفریت سے کراچی کو پاک کیا۔
2014 کے اوائل میں کراچی کے دوستوں کو جھٹ پٹ مارکیٹ میں بم دھماکوں میں بارہ معصوم افراد کی ہلاکت شاید یاد ہو! یہ دھماکے لیاری گنیگ وار کی جانب سے آپریشن کے خلاف ردعمل تھا۔ جس کا جواب دینے کے لئے رینجرز اور پولیس کے جوانوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر لیاری گینگ وار کے خلاف بھرپور آپریشن کیا اور لیاری گینگ کی کمر توڑ کر عذیر بلوچ کے قدم اکھاڑ دیے۔
اس کارروائی کے بعد عذیر بلوچ کو لیاری میں اپنے مضبوط قلعے سے نکل کر بھاگنا پڑا اور پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اسے بھگا بھگا کر بے دم کر کے جالیا۔ اس سفاک انسان کوچھوڑا نہیں، وہ پہلے بلوچستان بھاگا، جہاں اسے پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر کے گھر پناہ ملی۔ جنرل رضوان اختر کو علم ہوا تو انہوں نے پیچھا کرنے حکم دیا۔ ہم وہاں کارروائی کی پلاننگ کر ہی رہے تھے کہ عذیر بلوچ خطرہ بھانپ کر وہاں سے بارڈر کراس کر کے اپنے مہربانوں ایرانی انٹیلی جنس والوں کے پاس پہنچ گیا۔ یہ وہی لوگ تھے، جو اسے کراچی میں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے تھے اور اسے ایرانی پاسپورٹ بنا کر دے رکھے تھے۔ ریاستیں اپنے مفاد کے لئے کس طرح دوستوں کی کمر میں چھرا گھونپتی ہیں، اس کی بدترین مثال عذیر بلوچ کا کیس بھی ہے۔
آج فوجی عدالت سے اس سفاک انسان کو سزا سنائی گئی ہے، یہ شخص اس سے زیادہ کا مستحق ہے۔ اس کے ہاتھ پر جانے کتنے بے گناہوں کو لہو ہے اور وہ الگ ہیں جو اس کے اڈوں سے فروخت ہونے والی منشیات سے قبر میں اترے۔
میں آج اپنے ان تمام دوستوں ساتھیوں اور سپاہیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جن کی مشترکہ کوششوں سے آج لیاری ایک دفعہ پھر امن کا گہوارہ ہے۔
پاکستان زندہ باد
سندھ رینجرز پائندہ باد۔