علیشاء پیرمحمد
مجھ سے کیا پوچھتے ہو میری اداسی کا سبب
گھر سے باہر نکلو جان جاؤ گے سب ۔۔
رمضان المبارک کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات۔رمضان المبارک میں تمام شیاطین کو اللہ پاک قید کر دیتے ہیں مگر انسانوں کے روپ میں یہ دنیا میں بسنے والے شیطان تو اپنی فطرت کے مطابق رمضان المبارک جیسے پاک مہینے کا بھی احترام نہیں کرتے ۔اشیاخوردونوش حد سے زیادہ مہنگی کردی جاتی ہیں جب کہ رمضان المبارک کے برعکس عام دنوں میں ان چیزوں کے دام قدر ے کم ہوتے ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے تمام تاجر اپنی نماز اور روزوں کا ایسا خیال کرتے ہیں جیسے ما ں ایک شیر خوار بچے کا کرتی ہے مگر ماں کی محبت میں سچائی اور ایمانداری کا عنصر موجود ہوتا ہے اس کے برعکس تاجر برادری بظاہر تو رمضان المبارک میں لوگوں کو ریلیف دینے کا اعلان کرتے ہیں مگر ہر سال کی طرح اس سال بھی رمضان کو یہ کہہ کر گزار رہے ہیں کہ حکومت نے مہنگائی پہلے کے مقابلے میں بڑھا دی ہے وہ گاہکوں کو لوٹنے کے بعد مسجد کی جانب اس طرح دوڑ لگاتے ہیں جیسے ان سے زیادہ کوئی زاہد نہیں ہے ۔مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ مسجد مندر توڑنے کا اتنا گناہ نہیں جتنا حقوق العباد کو غصب کرنا۔ اللہ کی مخلوق کو دھوکا دے کر ان کے ساتھ برا سلوک کرکے گناہ کا خمیازہ چار گنا زیادہ ادا کرنا ہوگا۔
آج کے دور میں ہر امیر غریب یہی خیال کرتا ہے کہ خدارا رمضان المبارک کو رحمت بنانے والے رب ہم پر رحم فرما درحقیقت اللہ تعالی تو اپنی مخلوق پر رحم کرتا ہے مگر اس دنیا کے انسان نما شیطان بالکل بے حس ہو چکے ہیں ۔
پاکستان کے برعکس یورپ اور مغربی ممالک میں کرسمس، ویلنٹائن ڈے ،ایسٹر ،ہولی اور دیگر تہواروں کے موقع پر اشیا کی قیمتوں میں بے حد کمی کر دی جاتی ہے مگر افسوس کہ پاکستان ایک مسلم ملک ہونے کے باوجود ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے جال میں پھنسا ہوا ہے ۔چھوٹے بڑے تاجر حضرات اس ماہ مقدس میں محض کمائی کرنا جانتے ہیں حالانکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی تاجر تھے
اور آپ صلی علیہ وسلم کے تجارتی اصول ہمارے لئے ایک روشن مثال ہیں ریاست مدینہ کے حکمران سے گزارش کی جاتی ہے کہ رحمت کا عشرہ ختم ہوگیا ہے اب دوسرا شروع ہوچکا ہے اس میں آپ تاجروں کی پکڑ کریں اور پاکستان کے مسلمانوں کو روزے جیسے مقدس مہینے میں سکون فراہم کریں کیوں کہ اس قوم کو احساس پروگرام کی نہیں بلکہ مہنگائی کے جن کو ختم کرکے سکون حاصل کرنے کی ضرورت ہے نا کہ بھیکا ریو ں کی طرح لائن میں کھڑے ہوکر عزت خراب کرنے کی اور کام چور بن کر ریاست پر اپنے گھر والو ں پر بوجھ بن جائیں ۔