بچوں سے زیادتی کے ملزموں کو سرعام نہ صرف پھانسی بلکہ انکی لاش کو سرعام لٹکایا بھی جائے۔پاکستان کی قومی اسمبلی نے بچوں کی جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے مجرمان کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا ہے جوکہ پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’وزیر اعظم یہ چاہتے ہیں کہ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر اُنھیں قتل کرنے کے مقدمات میں ملوث مجرمان کو سرعام پھانسی کی سزا دی جائے جوکہ میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت کا سب سے اہم بہترین فیصلہ ہے۔
وزیر اعظم اور علی محمد خان کی جانب سے اٹھائے گئے اس اقدام کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے جس دن یہ قرار داد پیش کی گئی تھی اور وہ وقت جب یہ قرار. داد کا متن سنایا جارہا تھا اس وقت میرے جو جذبات تھے شاید وہ میں الفاظ میں ادا نہ کر پاوُں لیکن اس وقت مجھے یوں ضرور محسوس ہورہا تھا کہ جیسے اب ان معصوم بچوں کے ساتھ کی گئی بے حرمتی اور نا انصافی کا حق یہ حکومت ادا کرنے جارہی ہے جوکہ مدینے کی ریاست کی دعویداروں کی حکومت کی بہترین قانون سازی ہے، جو کہ اسلام میں دی جانے والی سزاوں سے بھی ہم آہنگی رکھتا ہے، جسکا بنیادی تشہیر نہیں ہے بلکہ خوف اور نصیحت ہے۔
لیکن کچھ ہی دیر میں چند بھونڈے اور بے سراپا الفاظ کا چناوُ کرتے ہوئے چند بے ضمیر حکومتی اور دیگر جماعتوں کے پاگل دماغ لوگوں کی جانب سے اس اقدام کی مخالفت کی گئی جس میں محترمہ شیریں مزاری ۔.صاحبہ,فواد چوہدری ،ملائکہ بخاری جوکہ حکومتی نمائندگان بھی ہیں کی جانب سے مخالفت کی گئی
ارے آپ لوگوں کو تو اس احسن اقدام کو سراہنہ چاہئے تھا نا کہ مخالفت میں کہتی ہوں شرم آنی چاہئے میں کس منہ سے مذمت کر رہے ہو ،کہتے ہیں سرعام پھانسی دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ میں پوچھتی ہوں تو کیا معصوم بچوں کو حوس کی آگ ٹھنڈی کرنے کے بعد بہیمانہ تشدد کرنا اور پھر بے دردی سے قتل کردینا انسانیت کے زمرے میں آتا ہے؟ کیا ان درندوں کو پھولوں کے ہار پہنائے جائیں کہ بہت عالیشان کارنامہ انجام دیا گیا ہے؟ تف ہے ان سب پر۔
قرار داد کے منظور ہوتے ہی سوشل میڈیا پر بھی صارفین نے اس قرارداد کے حق اور مخالفت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور پاکستان میں ٹوئٹر پر اس موضوع کے بارے میں ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کرنے لگا۔ جبکہ قومی اسمبلی میں حالیہ قرارداد کی منظوری کے تناظر میں ایک۔سروے کرایا گیا تھا۔جوکہ جرمن نشریاتی ادارے کے سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے کیا گیا جس میں ساڑھے 16 ہزار سے زائد صارفین نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ان میں سے 94 فیصد نے سرعام پھانسی کے حق میں ووٹ دیا۔ یاد رہے اس سزا کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد محض 6 فیصد تھی۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ ہراب عوام بھی یہی چاہتی ہے کہ اس طرح کے درندوں کو قرار واقعی کہ نہ صرف سزا دی جائے بلکہ عبرت کا نشانہ بھی بنایا جائے۔
ساتھ ہی میں یہ بھی آپکو بتانا چاہونگی کہ قرارداد کی منظوری کے وقت انسانی حقوق کی تنظیم کےجسٹس پراجیکٹ پاکستان نے اس حوالے سے یہ وضاحت پیش کی کہ 1983 میں پپو نامی لڑکے کے قاتل کو لاہور میں سرعام پھانسی دی گئی تھی۔ اس کی لاش سارا دن لٹکی رہی لیکن نہ تو اس ملک میں اور نہ ہی لاہور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں کمی آئی اورنہ ہی قتل کے واقعات ختم ہوئے اگر لاہور اور پنجاب کی ہی بات ہے تو میں یہ واضح کردوں کہ گزشتہ سال ریپ اور ریپ کے بعد قتل کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ہیں ہی رپورٹ ہوئے ہیں۔
پنجاب حکومت کی رپورٹ کے مطابق2019 میں 1024 واقعات رپورٹ ہوئے جس میں 905 بچے اور 411 بچیاں درندگی کا شکار ہوئیں۔لاہور میں 105 بچوں سے بد فعلی اور 94 بچیوں سےزیادتی کی گئی۔فیصل۔آباد میں 60 بچوں اور 15 بچیوں سے زیادتی کی گئی اور ملتان میں 36 بچےاور 13بچیاں حیوانیت کی بھینٹ چڑھیں ۔گوجرانوالہ میں 72 بچے اور 50 بچیاں نشانی بنائی گئیں۔بہاولپور میں 38 بچے اور 20 بچیوں سے زیادتی کی گئی یہ تو صرف پنجاب کے اعداد ود شمار ہیں دیگر شہروں کی بات کی جائے تو وہاں بھی کم قیامت نہیں گزری ایک اندازے کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر تقریبا ،9 بچے اس حیوانیت کا شکار ہوتے ہیں اب آپ ہی بتائیے کیا یہ جواز پیش کرنا کہ 1983 میں پپو کی لاش کو لاہور کی چوک میں لٹکایا گیا اور ریپ کیسزز کم نہ ہوئے تو کیا جناب آپ کے اس بیان پر چپ سادھ لی جائے تو کیا ان درندوں کو آزاد چھوڑدیا جائے تاکہ وہ جب چاہیں جہاں چاہیں کسی بھی ننھے اور معصوم بچے کو بلا خوف و خطر اپنی نہ صرف حوس کا نشانہ بنائیں بلکہ اپنی بد نامی کے ڈر سے اس کی جان تک لے لیں۔
میرا یہ سوال ان تمام تر افراد سے ہے جنہوں نے سرعام پھانسی کی قرار داد کی مخالفت کی ہے کہ کس منہ سے اس قرار داد کی مخالفت کی جاسکتی ہے جس تیزی سے بچوں کا جنسی استحصال کیا جارہا ہے گو کہ آپ تمام تر افراد کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہوگی کیونکہ آپ لوگوں کے ضمیر تومر چکے ہیں دل مردہ ہوچکے ہیں تو زرا پوچھیں ان لوگوں سے جن کے لخت جگر اچانک سے غائب ہوجاتے ہیں جن۔کی تلاش میں ماں باپ ہر لمحہ تڑپتے رہتے کہ کہیں سے کوئی خیر کی خبر آئیگی کہ بچوں کی واپسی کی امید ہو لیکن کیا ہوتا ہےہوتا اس کے بالکل برعکس ہے کہیں کوئی دکاندار کہیں کسی رشتہ دار تو کہیں کسی پڑوسی مطلب کہ کسی بھی حوس کے مارےخبیث الصفت درندے کی حوس نشانہ۔بن جاتا ہےاور پھر ننھے معصوم پھولوں کی لاش یا تو کچرے کے ڈھیر سے ملتی ہے یا کسی ندی یا کسی جنگل یا کسی ویران جگہ سے ملتی ہے تو سوچیں جب اس حالت میں اپنے دل کے ٹکڑوں کی مسخ شدہ لاشیں ان کی نظروں کے سامنے آتی ہیں تو کیا قیامت صغرا نہیں گزرتی ہوگی ان مجبور والدین پر یہ درد اور بے بسی تو صرف وہی محسوس کرسکتے ہیں نا جن کے ساتھ یہ واقعات ہوئے ہوتے ہیں میں تو یہاں ان تمام تر افراد کی اس سفاکانہ سوچ اور بے حسی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہوں اور صرف یہی کہونگی کہ زرا سوچئے کہ ان مجبور والدین کی جگہ آپ کے جگر کے ٹکڑے ہوتے تو کیا تب بھی آپ لوگوں کے بھی یہی تاثرات ہوتے ؟