معروف فکشن نگار اور نقاد، محمد حمید شاہد نے کہا ہے کہ کورونا وائرس اردو ادب کا ایسا موضوع بن گیا ہے، جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
صدارتی ایوارڈ یافتہ قلم کار نے ان خیالات کا اظہار وائس آف سندھ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ان کے مطابق اس وبا نے پوری دنیا کو متاثر کیا۔ اس کے حوالے سے کئی نظریات ہیں، کوئی کہتا ہے، قدرتی آفت ہے، کوئی کہتا ہے، اسے لیبارٹری میں تیار کیا گیا، جو غلطی سے باہر آگیا۔ حقیقت جو بھی ہو، یہ بہ ہرحال ایک وبا ہے، جس سے انسانیت کو خطرہ لاحق ہے۔ ہمارے ہاں دوہرا عذاب ہے، کیوں کہ وسائل کم ہیں۔ جہاں بھوک اور وبا ہو، وہاں جہالت سر اٹھاتی ہے۔
محمد حمید شاہد کے مطابق وہ اس موضوع پر سات آٹھ افسانے لکھ چکے ہیں، مزید افسانے ہوگئے، تو ایک کتاب ہوجائے گی۔ موضوعات سے متعلق انھوں نے بتایا کہ بہ طور فکشن نگار ان کے پیش نظر یہ نکتہ تھا کہ وبائی صورت حال میں معاشرے کے مختلف طبقات نے کیا رویہ اختیار کیا۔ مزدور پر کیا اثر پڑا، کس نے مسئلے کو موقع بنا لیا، مفاد پرستوں نے کیسے اسے اپنے فائدہ کے لیے استعمال کیا، تو انھوں نے ان ہی کو منظر کیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس صورت حال سے ہمیں سبق ملا ہے کہ جو اضافی بوجھ ہے، اسے اتار پھینکیں، غیرضروری چیزوں سے نجات حاصل کریں۔ ہمیں عالمی معاشی نظام سے جان چھڑا کر انسان کو انسان سے جوڑنا ہوگا، سماجی فاصلہ تو ہے، مگر مکالمہ شروع کرنا ہوگا۔ گھر کے ہر فرد کو کام پر لگانے کے بجائے سب مل کر کھائیں۔
”مٹی آدم کھاتی ہے“ جیسے یادگار ناول کے مصنف نے کہا انسان کو آسائش نہیں، مسرت تلاش کرنی چاہیے۔ یہ وبا یہی سکھاتی ہے، اگر انسان نے یہ سبق نہیں سیکھا، تو مصیبت بڑھے گی۔
انھوں نے نشان دہی کی کہ لاک ڈاؤن ہوا، تو ہمیں کئی ایسی چیزیوں کا احساس ہوا، جنھیں ہم نے پہلے محسوس نہیں کیا تھا، جیسے کشمیر کا لاک ڈاؤن، انسان کو میسر آزادی، جس پر ہم غور نہیں کیا تھا، تو انسان یقینا بدلے گا، اور یہ تبدیلی ادب کا موضوع بنے گا۔