دنیا میں ملک، دیش، وطن، اپنی زمین اور اپنا گھر کس لیے ہوتے ہیں؟ اپنے وطن میں آپ کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ آپ آزاد ہیں، آپ اپنے وطن کے ایک ایسے باسی ہیں جو اپنے ملک کے کسی بھی حصے میں بغیر کسی روک ٹوک جا سکتے ہیں، آپ کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ آپ محفوظ ہیں، آپ کو حقوق حاصل ہیں، آپ کی جان، مال اور اولاد سب محفوظ ہیں۔ اپنے اور اپنے پیاروں کی حفاظت کا احساس شاید دنیا میں سب سے خوبصورت احساس ہوتا ہے۔
لیکن اس دنیا میں ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں کے باسی حُب الوطن ہونے کے باوجود بھی محفوظ نہیں، اُن کی محبت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اُن کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے، اُن کی وفاداری کو دوغلا پن اور دھوکہ تصور کیا جاتا ہے۔ جی ہاں میں بات کر رہا ہوں بھارتی مسلمانوں کی جن کے لیے اُن کے اپنے وطن میں ہی زمین تنگ کردی گئی ہے۔آئے روز بھارتی ٹی وی چینلز پر اینکر حضرات بیٹھ کر مسلمانوں سے یہ سُوال کرتے نظر آتے ہیں کہ آپ فیصلہ کرلیں آپ کس کے ساتھ ہیں پاکستان کے یا بھارت کے؟ آئے دن چیخ چیخ کر ان سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے بھارتی ہونے کا ثبوت پیش کریں، اپنے محبت کی سند دکھا ئیں، آپ منہ پر گاندھی کے وطن کی بات کرتے ہیں لیکن اندر سے جناح کی محبت کا دم بھرتے ہیں۔
انہیں کبھی دہشت گرد کہا جاتا ہے، کبھی رجعت پسند کے طعنے ملتے ہیں تو کبھی دقیانوسی سوچ کا حامل ٹھہرایا جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا صرف یہی تک محدود نہیں بلکہ یہ میڈیا برملا اسلامی احکامات اور عبادات پر بھی پروگرام کرتے نظر آتے ہیں۔ قربانی اسلام میں صاحبِ استطاعت پر فرض ہے یہ ایک ذاتی معاملہ ہے، اس معاملے کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے خاص طور پر وہ ریاست جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری اور سیکولر ریاست ہے۔ لیکن میڈیا اور اینکر حضرات کی کرتوتیں یہ ہیں کہ وہ قربانی جیسے فریضے کو نشانہ بنا کر اسلام پر حملہ کرنے کی کوشش کرتی ہے، یہ سُوال اٹھائے جاتے ہیں کہ قربانی سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ طلاق کا معاملہ ہو یا مسلمانوں کا عربی نام رکھنے کا یا پردے کا سب کچھ میڈیا پر دکھایا جاتا ہے، تمسخر اڑایا جاتا ہے اور دنیا کو یہ دکھایا جاتا ہے کہ بھارت میں جہالت مسلمانوں کی وجہ سے ہے۔
صرف بات میڈیا تک محدود نہیں بھارت کا ہندو بھی مودی سرکار میں شدت پسند ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اپنے گھر میں ہی زندگی گزارنا عذاب ہوگیا ہے۔ آئے دن شدت پسند ہندووُں کا ہجوم کسی نہ کسی مسلمان کو تعصب کا نشانہ بنا کر قتل کردیتا ہے یا اتنا مارتا ہے کہ وہ زخمی ہو کر تڑپتا اور سسکتا رہتا ہے۔ مسلمانوں سے پوچھا جا رہا ہے کہ ثبوت دیں آپ کے آبا و اجداد ہندوستانی تھے کہ نہیں۔ بھارت میں کورونا کے پھیلاوُ کا ذمہ دار بھی مسلمانوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ کس بے شرمی سے وہاں کا میڈیا اس طرح سے کورونا وائرس کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرا رہا ہے جیسے پوری دنیا میں کورونا ان ہی کی بدولت پھیلا ہے۔
مسلمان روز اپنے دیش بھگت ہونے کا ثبوت پیش کرتے رہتے ہیں ، صرف عوام ہی نہیں خواص بھی اس شدت پسندی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ بالی وُڈ کے مشہور اداکار نصیر الدین شاہ آئے دن اس خوف کے احساس کا ذکر کرتے رہتے ہیں جو انہیں ہندو شدت پسندوں کی جانب سے ہوتا ہے۔ اُنہوں نے تو کہہ دیا تھا کہ مجھے ڈر لگتا ہے سڑکوں پر چلنے سے نا جانے کب کون میرے اور میرے بچوں کو صرف ہمارے نام کی وجہ سے قتل کردے ۔اداکار عامر خان اور شاہ رخ خان بھی اس طرح کے ٹویٹ کرکے اپنے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے بھارت میں زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے۔
ان سب کے باوجود بھی وہاں کا مسلمان اپنے دیش سے وفاداری کا حلف اٹھائے ہوئے ہے، ممبئی کے رہنے والے ایک دنیش کمار یادو کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ وہ اور ان کے بچے لاک ڈاوُن میں پھنس گئے، انہوں نے بہت امیر ہندوُں سے رابطہ کیا لیکن کسی نے مدد نہیں کی لیکن ایک مسلمان نے مجھے اور میرے بچوں کو پناہ دی۔ وہ بڑی محبت سے مجھے اور میرے بچوں کا خیال رکھتے ہیں اور جن تک لاک ڈاوُن رہے گا تب تک وہ میرے اور میرے بچوں کو رہائش، کھانا اور پینا فراہم کریں گے۔ دنیش کمار نے مزید ویڈیو میں بتایا کہ مسلمانوں کو میڈیا میں جیسا دکھایا جاتا ہے ویسے وہ قطعی نہیں، ان سے بات کرکے تو دیکھو، ان سے محبت کرکے تو دیکھو یہ مسلمان بھارت کے سچے سپوت ہیں۔